جمعرات 20 نومبر 2025 - 20:25
جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی چند کنیزوں کا تذکرہ

حوزہ/ جنابِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حیاتِ طیبہ میں اُن کی کنیزوں (خادِمات) کا ذکر روایات میں موجود ہے۔ یہ خواتین نہ صرف خدمت گزار تھیں، بلکہ عابدہ، صالحہ اور سیدہؑ کی تربیت یافتہ بھی تھیں۔

تحریر:سید عترت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی|

جنابِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حیاتِ طیبہ میں اُن کی کنیزوں (خادِمات) کا ذکر روایات میں موجود ہے۔ یہ خواتین نہ صرف خدمت گزار تھیں، بلکہ عابدہ، صالحہ اور سیدہؑ کی تربیت یافتہ بھی تھیں۔ سیدہؑ نے اُن کے ساتھ ہمیشہ عدل، محبت، اور روحانی تربیت کا سلوک فرمایا، حتیٰ کہ ان کے ساتھ برابری کا برتاؤ کیا — جو ایک عظیم اخلاقی اور تربیتی مثال ہے۔

آئیے اس موضوع کو تفصیل سے دیکھتے ہیں!

1. فِضّہ نُوبِیَہؒ

سیدہؑ کی سب سے مشہور کنیز اور خدمت گزار حضرت فِضّہ نوبیہؒ ہیں۔
یہ سیدہؑ کی خدمت میں تقریباً عشرہ مدنیہ (دس سال سے زیادہ) تک رہیں۔
ان کا تعلق حبشہ (موجودہ ایتھوپیا یا سوڈان) سے تھا۔

خصوصیات:

عالمہ اور حافظہ قرآن تھیں۔

روایت ہے کہ عشرہِ سال تک صرف قرآن کی آیات کے ذریعے گفتگو کرتی رہیں!

سیدہؑ کی تربیت سے وہ عبادت گزار، پرہیزگار اور فہمِ قرآن میں بلند مقام پر فائز ہوئیں۔

روایتی واقعہ:

ایک دن رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ فاطمہؑ چکی پیس رہی ہیں اور فضّہؒ آرام کر رہی ہیں۔
آپؐ نے فرمایا: "اے فاطمہ! فضّہ تمہاری خادمہ ہے، لیکن وہ بھی اللہ کی بندی ہے، تم ایک دن خود کام کرو، اور ایک دن اسے کرنے دو۔"(بحارالانوار، ج 43)

جناب سیدہؑ نے فوراً قبول کیا — یہ عدل اور مساوات کی اعلیٰ تربیت ہے۔

بعد کا حال:

حضرت علیؑ کے بعد بھی فضّہؒ اہلِ بیتؑ کے ساتھ رہیں۔

واقعۂ کربلا میں بعض روایات کے مطابق وہ موجود تھیں۔

امام زین العابدینؑ کے زمانے تک ان کی حیات رہی۔

2. سلمیٰؒ

ایک دوسری کنیز سَلمیٰؒ تھیں، جو سیدہؑ کے گھریلو امور میں معاون تھیں۔
روایات میں ہے کہ سلمیٰؒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی خدمت کرتی تھیں،
پھر بعد میں فاطمہؑ کی خدمت میں آئیں۔

ان سے منقول ہے کہ"میں نے سیدہ فاطمہؑ کو کبھی دنیاوی باتوں میں مشغول نہیں دیکھا۔
وہ ہمیشہ یا تو قرآن پڑھ رہی ہوتیں یا ذکرِ خدا میں مشغول رہتیں۔"(بحارالانوار، ج 43)

3. اُمّ ایمن (برکہ بنت ثعلبہؒ)

اگرچہ اُمّ ایمنؒ زیادہ تر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خادمہ تھیں، لیکن اُن کا تعلق بھی اہلِ بیتؑ سے تھا، اور سیدہؑ اُن کا بہت احترام کرتی تھیں۔

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: "اُمّ ایمن میری ماں کے بعد میری ماں ہے۔"(کافی، ج 1)

اور جب سیدہؑ کی شہادت ہوئی تو اُمّ ایمن نے ان کی تربیت، بچوں (حسنؑ و حسینؑ) کی خدمت اور غم میں ساتھ دیا۔

4. اسماء بنت عمیسؒ

اگرچہ وہ “کنیز” نہیں تھیں بلکہ قریبی خادمہ اور محرمہ تھیں، لیکن سیدہؑ کی آخری زندگی میں ان کا اہم کردار رہا۔

روایت ہے کہ جب سیدہؑ کا وقتِ وفات قریب آیا، تو انہوں نے اسماء بنت عمیسؒ کو وصیت کی کہ
میرے بعد مجھے غسل دینا، اور میرا کفن اسی طرح تیار کرنا جیسے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا گیا تھا۔"(بحارالانوار، ج 43)

اسماءؒ نے ہی سیدہؑ کو غسل و کفن دیا، اور جنابِ علیؑ کے ساتھ تدفین میں شریک ہوئیں۔

جناب سیدہؑ کا اپنی کنیزوں سے سلوک

سیدہ فاطمہؑ کا اپنی خادِمات کے ساتھ انسانی، روحانی اور مساوی سلوک تاریخ کا روشن باب ہے:

1. عدل و مساوات:
"ایک دن میں کام، ایک دن فضّہؒ۔"
2. احترام:
کبھی سخت لفظ نہیں کہا۔
ہمیشہ "یا أُختاہ" (اے بہن) کہہ کر مخاطب کیا۔
3. تعلیم و تربیت:
انہیں قرآن، ذکر اور خدمتِ خلق کی تعلیم دی۔
4. روحانی اثر:
فضّہؒ اور دیگر خادِمات آپؑ کے اخلاق سے متاثر ہو کر عارفہ و زاہدہ بن گئیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha